ایک وقت تھا سائنس
نے اتنی ترقی
نہیں کی تھی یہ اس
دور کی بات ہے جب صرف
ریڈیوہوتا تھا اس
پر بھی صرف
جو نشریات ہو تی
تھی وہ سنی
جا سکتی تھی
اور وہ ریڈیو
بھی گھر کے
کسی بڑے کی
پاس ہوتا تھا۔تب
کوئی انفارمیشن اتنی
عام نہیں ہوتی
تھی تب ریڈیو
بھی عام نہیں
تھا۔ کوئی بھی میچ
ہو یا نیوز
وہ صرف سنی
جا سکتی تھی
دیکھی نہیں۔
پھربلیک اینڈ وائیٹ ٹیلیوژن کا دور آیا پھر سب نشریات سننے کے ساتھ دیکھی بھی جانے لگی لیکن یہ دور بھی عام نہیں تھا کیونکہ ٹی وی بھی عام نہیں تھاآہستہ آہستہ جب ریڈیو اور ٹی وی عام ہونے لگے تب لوگوں میں انفارمیشن کا تبادلہ خیال بھی ہونے لگا کچھ عرصے بعد کلرڈ ٹی وی کا دور آیا جس میں لوگو ں کا ٹی وی رکھنے کا رجحان بڑھنے لگا تب نئے دور کا آغاز ہوا پھر کیبلز آئی مختلف چینلز آےٴ اور ان چینلز میں ایک دوڑ لگ گئی مقابلہ ہونے لگا ہر چینل نیوز لوگوں تک پہلے پہنچانے کی کو شش کرنے لگا۔ پہلے یہ تھا کہ صرف ایک چینل پر ہی پروگرام چلا کرتے تھے جیسے کہ کھیل،نیوز، ڈرامے وغیرہ اب تو ہر پروگرام کے لیے الک چینلز چل رہے ہیں۔ کھیل کا الگ چینل ہے نیوز کا الگ اسے طرح باقی پروگرام کے لیے الگ چینلز۔
ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والوں
نے صرف یہاں
پر ختم نہیں
کیا سائنسدانوں نے ایک مختلف موڑ
دے دیا انفارمیشن
لوگوں تک پہنچانے
کے لیے سوشل
میڈیا کے زریعے
جی ہاں جیسے
کہ گوگل، فیس
بک، ٹویٹر، انسٹاگرام
اور بہت سے
سوشل میڈیا شامل
ہیں ۔ مختلف
چینلز کی طرح
یہ سوشل میڈیا
میں بھی مقابلہ
ہو رہا ہے
لوگوں تک انفارمیشن
دینے میں اور
آےٴ دن یہ
سوشل میڈیا میں
اپڈیشن ہوتی رہتی
ہے اپنے کسٹمر
کو فائدہ دینے
کے لیے۔ ان سوشل
میڈیا کے زریعے
لوگ بہت سی چیزیں شئیر
کرتے ہیں جن
میں تصاویر، ڈاکومینٹس
وغیرہ۔ان سوشل ویب سائٹ کے زریعے لوگ صرف ایفارمیشن
کا تبادلہ نہیں
کرتے بلکہ لوگ ویڈیو کالز
وغیرہ بھی کرتے
ہیں۔
Tags:
ٹیکنالوجی